تلاش شدہ نتائج

محفوظ شدہ الفاظ

"ہائے مُختَفی" کے متعقلہ نتائج

ہائے مُختَفی

(قواعد) وہ ’ہ ‘ جو لکھی جائے، لیکن کھل کر پڑھی نہ جائے اور حرف ماقبل کی حرکت ظاہر کرے جو فتحہ ہوتی ہے، جیسے: جامہ، دیوانہ، فسانہ، وغیرہ، اسے ہائے غیر ملفوظ بھی کہتے ہیں، اضافت کی صورت میں اس پر ہمزہ آتا ہے، لیکن اس کی اپنی آواز ظاہر نہیں ہوتی، جیسے: نامۂ غالب، فسانۂ دل وغیرہ میں

اردو، انگلش اور ہندی میں ہائے مُختَفی کے معانیدیکھیے

ہائے مُختَفی

haa-e-muKHtafiiहा-ए-मुख़्तफ़ी

اصل: عربی

وزن : 22212

موضوعات: قواعد قواعد

ہائے مُختَفی کے اردو معانی

اسم، مؤنث

  • (قواعد) وہ ’ہ ‘ جو لکھی جائے، لیکن کھل کر پڑھی نہ جائے اور حرف ماقبل کی حرکت ظاہر کرے جو فتحہ ہوتی ہے، جیسے: جامہ، دیوانہ، فسانہ، وغیرہ، اسے ہائے غیر ملفوظ بھی کہتے ہیں، اضافت کی صورت میں اس پر ہمزہ آتا ہے، لیکن اس کی اپنی آواز ظاہر نہیں ہوتی، جیسے: نامۂ غالب، فسانۂ دل وغیرہ میں

English meaning of haa-e-muKHtafii

Noun, Feminine

  • the imperceptible 'h' (at the end of a word as in بہانہ bahana)

हा-ए-मुख़्तफ़ी के हिंदी अर्थ

संज्ञा, स्त्रीलिंग

  • वह 'हे' अर्थात 'ह' जो लिखी जाए मगर पढ़ी न जाए और केवल यह प्रकट करने के लिए आए कि अंतिम अक्षर हल् नहीं है, जैसे-‘परवानः, दीवानः, मस्तानः आदि, इज़ाफ़त के रूप में इस पर 'हम्ज़ा' आता है लेकिन उसका अपना कोई स्वर प्रकट नहीं होता जैसे: نامۂ غالب، فسانۂ دل आदि

ہائے مُختَفی کے مترادفات

ہائے مُختَفی سے متعلق دلچسپ معلومات

ہائے مختفی فارسی میں ہائے ہوز دو طرح کی ہوتی ہے: (۱) ملفوظی۔ (۲) غیرملفوظی۔ اسے ہائے مختفی بھی کہتے ہیں۔ ہائے ملفوظی کی جگہ مقرر نہیں۔ یہ لفظ کے شروع میں، وسط میں، یا آخر میں، کہیں بھی آسکتی ہے: ہستی [اول لفظ] ہوش [اول لفظ] مہر[وسط لفظ]، مرہم [وسط لفظ]، درہ[اخیر لفظ]، گرہ [اخیر لفظ] ہائے ملفوظی کی دوسری پہچان یہ ہے کہ اگر یہ لفظ کے آخر میں ہو اور فارسی قاعدے کے مطابق اس کی جمع ’’ہا‘‘ سے بنائیں تو اصل لفظ کی ہائے ہوز ساقط نہیں ہوتی، صاف سنائی دیتی ہے: انبوہ/انبوہ ہا، چاہ/چاہ ہا، راہ/راہ ہا، شبیہ/شبیہ ہا، کوہ/کوہ ہا، گرہ/گرہ ہا ہائےغیر ملفوظی، یعنی ہائے مختفی، لفظ کے صرف آخر میں آتی ہے۔اس کی پہلی اور اہم ترین پہچان یہ ہے کہ کسی لفظ میں ہائے مختفی ہو اور اس کی جمع بنائیں توہائے مختفی ساقط ہوجاتی ہے۔ آزردہ/آزردگاں، آئینہ/آئینہ، پردہ/پردہ، پیمانہ/پیمانہا، جامہ/جامہا، جلوہ/ جلوہا، خواجہ/خواجگاں، زندہ/زندگاں، شیشہ/شیشہا، مردہ/مردگاں، نامہ/نامہا، نگینہ/ نگینہا جیسا کہ اوپر کی مثالوں سے معلوم ہوتا ہے، ہائے مختفی پر ختم ہونے والے لفظ کی جمع اگر الف و نون لگا کر بنے تو الف کے پہلے گ کا اضافہ کرتے ہیں: آزردہ/آزردگاں۔ ہائے غیر ملفوظی، یعنی ہائے مختفی کی دوسری پہچان یہ ہے کہ یہ اکثر اپنے ماقبل حرف کی حرکت (جو ہمیشہ فتحہ ہوتی ہے) پر دلالت کرتی ہے۔ یعنی اگر ہائے مختفی ہے تو اس کے پہلے والاحرف مفتوح ہوگا۔ اس ہائے غیر ملفوظ کا لفظ کے معنی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا: آوازہ، بندہ، جامہ، چہرہ، خامہ، شکستہ، شگوفہ، موجہ، نامہ ہائے مختفی کی تیسری پہچان یہ ہے کہ ہائے مختفی والے لفظ کو جب حالت فاعلی میں لاتے ہیں تو علامت فاعلی [ یائے تحتانی] کے پہلے کاف فارسی بڑھاتے ہیں: آوارہ/آوارگی، بندہ/بندگی، بیچارہ/بیچارگی، پردہ/پردگی، ہمسایہ/ہمسائیگی ایک دلچسپ صورت ’’وغیرہ‘‘ کی ہے، کہ اردو میں اس کی جمع ’’وغیرہم‘‘ ہے۔ یعنی اسے مستقل عربی لفظ قراردیا گیا ہے، اور یہ ٹھیک بھی ہے، کہ ’’وغیرہ‘‘ کی ہائے ہوز اور’’وغیرہم‘‘ کا ’’ہم‘‘ مستقل ضمائر ہیں، یعنی خود ہی لفظ کا حکم رکھتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ متذکرہ بالا تینوں پہچانیں ایک لفظ میں اکٹھا ہوں، ایسا ہوتا ہے اور نہیں بھی ہوتا۔ اہم ترین پہچان، جسے ہائے مختفی کا سنگ بنیاد کہنا چاہئے، اور جو یقیناً موجود ہو گی، یہ ہے کہ جب ہائے مختفی والے لفظ کی جمع بنتی ہے تو ہائے مختفی ساقط ہوجاتی ہے۔آج کے املا میں کہیں کہیں ممکن ہے کہ لکھنے کی آسانی کی خاطر ہائے مختفی کو ساقط نہ کیا جائے، لیکن پڑھی یا بولی وہ بہرحال نہیں جاتی، یعنی ملفوظ نہیں ہوتی۔ مثلاً ممکن ہے کہ کوئی ’’جلوہ/جلوہا‘‘ کی جگہ ’’جلوہ ہا‘‘ لکھے، ’’دہنہ/دہنہا‘‘ کی جگہ ’’دہنہ ہا‘‘ لکھے، ’’ذرہ/ذرہا‘‘ کی جگہ ’’ذرہ ہا ‘‘، ’’نامہ/نامہا‘‘ کی جگہ ’’نامہ ہا‘‘ لکھے، لیکن بولنے میں وہی ہائے ہوز بولی جائے گی جو علامت جمع ہے۔ بعض حالتوں میں ہائے مختفی معنی پر بھی دلالت کرتی ہے، لیکن اس سے اس کی ملفوظی یا مکتوبی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ فارسی میں ہائے مختفی کسی بھی لفظ میں واقع ہوسکتی ہے۔ فارسی کا ’’چہرہ‘‘ یا ’’سایہ‘‘ ہو، عربی کا ’’جلوہ‘‘ یا ’’شہرہ‘‘ ، یاترکی کا’’چامہ‘‘ اور’’داروغہ‘‘، فارسی کے قاعدے کے بموجب سب کاآخری حرف ہائے مختفی ہے۔ ایسا نہیں کہ چونکہ خودعربی یا ترکی میں ہائے مختفی کا وجود نہیں، اس لئے فارسی میں مستعمل عربی یا ترکی لفظ پر ہائے مختفی کا اصول نہ جاری ہو۔ جو لفظ فارسی میں دخیل ہوگیا اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا جاتا ہے جو اصل فارسی الفاظ کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ فارسی میں ہائے مختفی کا یہ مختصرحال بیان ہوا۔ اب دیکھتے ہیں کہ اردو میں کیا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ ’’ہندی‘‘ میں ہائے مختفی نہیں ہے، اس لئے ’’ہندی‘‘ لفظوں کو ہائے مختفی سے نہ لکھا جانا چاہئے۔ان لوگوں کی رائے میں حسب ذیل املا غلط ہیں: باڑہ، پتہ، پیسہ، ڈاکہ، گھنٹہ، مہینہ، میلہ ان لوگوں کے خیال میں انھیں یوں لکھنا چاہئے: باڑا، پتا، پیسا، ڈاکا، روپیا، گھنٹا، مہینا، میلا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’ہندی‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اگر’’ہندی‘‘ سے جدید ہندی مراد ہے جو ناگری حرفوں میں لکھی جاتی ہے تو وہ ایک الگ ہی زبان ہے، اس میں کسی حرف یا آواز کا ہونا نہ ہونا اردو کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یا اگر کچھ معنی رکھتا بھی ہو، تو یہ ہندی لکھی جاتی ہے ناگری رسم خط میں، اور اس رسم الخط میں تو ہائے مختفی کے حامل فارسی عربی الفاظ، مثلاً ’’پردہ، چہرہ، دایہ، سکہ‘‘ وغیرہ لکھنے کا کوئی طریقہ بھی نہیں۔ وہاں تو انھیں ’’پردا، چہرا، دایا، سکا‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔ یعنی فارسی عربی الفاظ کی ہائے مختفی، جسے اردو والوں نے بڑے اہتمام سے قائم رکھا ہے، وہ بھی ناگری رسم الخط کی جدید ہندی میں زائل ہوجاتی ہے۔ جدید ہندی، جو ناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے، اس میں آخری ہائے ہوز اور آخری الف میں فرق کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ لہٰذاوہاں کا عمل اردو کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔علاوہ بریں، اردو والے چاہے کتنا بھی شور کریں کہ ’’ہندی‘‘ میں ہائے مختفی کا وجود نہیں، لیکن ناگری رسم خط کی جدید ہندی لکھنے والوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ہمیں فارسی عربی الفاظ کی ہائے مختفی کو ظاہر کرنے کے لئے کوئی خاص علامت بنانی چاہئے۔ تمام ترقی یافتہ زبان والوں کی طرح وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم’’پردہ، جلوہ‘‘ وغیرہ کی ہائے مختفی کو اپنی علامت [’’آ‘‘ ] کی علامت سے ظاہر کریں گے، فارسی میں کیا ہے یا کیا نہیں ہے، وہ فارسی کا معاملہ ہے۔ ہمیں اس سے کچھ مطلب نہیں۔ اگر ’’ہندی‘‘ سے مراد لی جائے ’’وہ زبان جسے آج اردو کہتے ہیں، اور جس کا ایک پرانا نام ’’ہندی‘‘ بھی تھا‘‘، تو اس میں تو ہائے مختفی موجود ہے۔ ’’چہرہ، شہرہ، مہرہ، پردہ، کیسہ، کینہ‘‘ وغیرہ یہ سب لفظ تو اردو کے ہی ہیں، ان میں تو ہائے مختفی موجودہے۔ اگر کہا جائے کہ یہ الفاظ تو عربی فارسی کے ہیں، ان میں ہائے مختفی ہوسکتی ہے۔ تو سوال یہ بھی اٹھے گا کہ عربی میں بھی تو ہائے مختفی نہیں ہے۔ عربی تلفظ اور/یا املاکے اعتبار سے ’’شہرہ، جلوہ، غلبہ‘‘ وغیرہ میں ہائے مختفی نہیں ہے۔ لیکن فارسی والے ان میں ہائے مختفی مانتے ہیں، تو اردو میں بھی ایسا کیوں نہ ہو؟ پھر یہ زبردستی کیوں کہ اردو کے دیسی الفاظ (مثلاً پیسہ، روپیہ، وغیرہ) میں ہائے مختفی نہیں ہے اور انھیں ہائے ہوز سے نہ لکھنا چاہئے؟ اس کا جواب آج تک نہیں دیا جاسکا، لیکن اگر کوئی جواب ہوگا تو یہی ہوگا کہ فارسی کو اپنے قاعدے بنانے کا حق ہے کہ وہ آزاد زبان ہے، اردو کو یہ حق نہیں۔ لیکن مجھے امید ہے کہ کٹر سے کٹر عربی /فارسی پرست کو یہ جواب قبول نہ ہوگا۔ اگر’’ہندی‘‘ الفاظ سے مراد لی جائے وہ الفاظ جو غیر زبانوں کے الفاظ کو اردو سے منہا کردینے پر بچ رہیں گے، تو سوال اٹھے گا کہ سنسکرت ’’غیر زبان‘‘ ہے کہ نہیں؟ اگر ہے، تو سنسکرت اور سنسکرت الاصل لفظوں کو نکال لینے کے بعد اردو میں شاید ہی کچھ بچے۔ اور اگر سنسکرت کو غیر زبان نہ مانیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سنسکرت اور ہندی ایک ہی ہیں۔ اس قول کا اہمال ظاہر ہے، کیوںکہ اگر’’ہندی‘‘ میں ہندی وہی ہے جوسنسکرت ہے، اور باقی سب غیر زبانیں ہیں، تو پھر خود ’’ہندی‘‘ کیا ہے (یا ’’اردو‘‘ کیاہے؟ ) دوسری بات یہ کہ اگر سنسکرت غیر زبان نہیں تو فارسی کو غیر زبان کیوں کہیں؟ آخر دونوں آپس میں بہن بہن ہی تو ہیں۔ غرض جس طرح سے دیکھئے، یہ بات مہمل ہے کہ ’’ہندی‘‘ (یعنی اردو کے دیسی الفاظ) میں ہائے مختفی نہیں، لہٰذا ’’ہندی‘‘ (یعنی اردو کے دیسی) الفاظ جیسے ’’باڑا، پتا، پیسا، ڈاکا، روپیا، گھنٹا، مہینا، میلا‘‘ وغیرہ کا صحیح املا ہائے ہوز سے نہیں بلکہ الف سے ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اردومیں اصل صورت حال کیا ہے؟ پہلی بات تویہ کہ فارسی میں قاعدہ ہے کہ حالت جمع میں ہائے مختفی ساقط ہوجاتی ہے۔ کیا اردو میں ایسا ہی ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ اردو میں بھی عربی فارسی الفاظ کی ہائے مختفی کے ساتھ یہی قاعدہ برتا جاتا ہے: آوارہ/آواروں، آوارے؛ آئینہ/آئینوں، آئینے، ارادہ/ارادوں، ارادے، اندیشہ/اندیشوں، اندیشے، پردہ/پردوں، پردے، پیمانہ/پیمانوں، پیمانے، جلوہ/جلووں، جلوے، چہرہ/چہروں، چہرے، خواجہ/خواجگاں، دائرہ/دائروں، دائرے، سکہ/ سکوں سکے، مردہ/مردوں، مردے، نسخہ/نسخوں، نسخے، نقشہ/نقشوں، نقشے، وغیرہ۔ اب ذرا ’’ہندی‘‘ (یعنی اردو کے دیسی) الفاظ کو دیکھئے۔ یہاں بھی بعینہٖ یہی صورت ہے: امامباڑہ/امامباڑوں/امامباڑے، پتہ/پتوں، پتے، پرنالہ/پرنالوں، پرنالے، پیسہ/پیسوں، پیسے، دھبہ/دھبوں، دھبے، ڈبہ/ڈبوں، ڈبے، روپیہ/ روپیوں، روپئے، گولہ/گولوں، گولے، گھنٹہ/گھنٹوں، گھنٹے، میلہ/میلے، میلوں، نالہ/نالوں، وغیرہ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ زبان کے بولنے اور برتنے والوں نے ان، اور ان کی طرح کے ان گنت ’’ہندی‘‘ (یعنی اردو) الفاظ کو ہائے مختفی کا حامل قرار دیا ہے۔ لہٰذا اردو میں ہائے مختفی موجود ہے، ورنہ حالت جمع میں ساقط ہونے والی ہائے ہوز پھر کیا ہے؟ یہاں ہم کہہ سکتے ہیں اردو میں بہت سے لفظ جو الف پر ختم ہوتے ہیں، ان کی بھی حالت جمع میں الف ساقط ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ’’گھنٹہ، پیسہ، مہینہ‘‘ میں آخری ہائے ہوز کا حالت جمع میں سقوط کچھ ثابت نہیں کرتا۔ لیکن یہی تو لطف کی بات ہے۔ لفظ کی حالت جمع میں آخری الف کا سقوط یہی ثابت کرتا ہے کہ اردو میں ہائے مختفی ہے۔ مندرجہ ذیل پر غور کریں: بیٹا/بیٹوں، بیٹے، ٹھکانا/ٹھکانوں، ٹھکانے، جوتا/جوتوں، جوتے، چرچا/ چرچوں، چرچے، دھارا/دھارا/دھاروں، دھارے، ڈنڈا/ڈنڈوں، ڈنڈے، کتا/ کتوں، کتے، لڑکا/لڑکوں، لڑکے، وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا لفظوں اور مندرجہ بالا قسم کے لفظوں میں اردو والے چھوٹی ہ یعنی ہائے مختفی ہی فرض کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض الفاظ ہائے مختفی کے ساتھ لکھے بھی جاتے تھے۔لیکن پھر یہ بھی ہے: ابا/اباؤں، تایا/ تایاؤں، تائے، دادا/ داداؤں، گھٹا/ گھٹاؤں، گھٹائیں، مینا [اول مفتوح] / میناؤں، مینائیں، نانا/نانائوں، نائکا/نائکاؤں، نائکائیں، وغیرہ۔ ان فارسی/عربی الفاظ کو بھی سامنے رکھ لیجئے: تمنا/ تمناؤں، تمنائیں، دریا/دریاؤں، دلربا/دلرباؤں، دلربائیں، دنیا / دنیاؤں، دنیائیں، شیدا/شیدائوں، صحرا/صحراؤں وغیرہ۔ مندرجہ بالا مثالوں کی روشنی میں حسب ذیل اصول قائم ہوسکتے ہیں: (۱) الف پر ختم ہونے والے دیسی الفاظ اگر مذکر ہیں توحالت جمع میں ان کا الف ساقط ہوجائے گا۔([مہا] راجا/راجاؤں استثنائی ہے۔ لیکن ’’[مہا] راجوں‘‘ بھی سنا گیاہے، کیونکہ ’’[مہا] راجہ‘‘ بھی مستعمل ہے)۔ (۲) الف پر ختم ہونے والے دیسی الفاظ اگر مؤنث ہیں تو حالت جمع میں ان پرنون غنہ یا نون غنہ بسقوط الف بڑھایا جائے گا: ٹھلیا، ٹھلیاں، ٹھلیوں، چڑیا، چڑیاں، چڑیوں، کلہیا، کلہیاں، کلہیوں (۳) یا ان پر ہمز ہ واؤ نون غنہ/ہمزہ یائے نون غنہ بڑھائے جائیں گے: آتما، آتماؤں/ئیں، جٹا، جٹاؤں/ئیں، چتا، چتاؤں/ئیں، سیوا، سیواؤں/ئیں، مینا [اول مفتوح] میناؤں/ئیں ملحوظ رہے کہ ’’بڑھیا، بڑھیاں، بڑھیوں‘‘ اس حکم میں نہیں ہے کہ یہ دراصل ’’بوڑھی، بوڑھیاں، بوڑھیوں‘‘ ہے۔ (۴)الف پر ختم ہونے والے الفاظ اگر بزرگی کارشتہ بیان کرتے ہیں (ابا، تایا، چچا، دادا، نانا، وغیرہ) تو حالت جمع میں ان پرہمزہ واؤ نون غنہ/ہمزہ یائے نون غنہ بڑھائے جائیں گے، وعام اس سے کہ وہ لفظ غیر زبان کے ہیں یا دیسی ہیں۔ لفظ ’’خالہ‘‘بھی اسی حکم میں ہے، شاید اس لئے کہ اس کا املا الف سے بھی مروج ہے۔ لفظ ’’آیا‘‘ بھی اسی حکم میں ہے کیونکہ’’آیا‘‘ کے اصل معنی ’’ماں‘‘ کے ہیں۔ (۵)ہائے ہوز پر ختم ہونے والے الفاظ کی ہائے ہوز اگر حالت جمع میں ساقط نہ ہو تو وہ ہائے مختفی نہیں ہے۔ اور اگر ساقط ہو، تووہ ہائے مختفی ہے، وعام اس سے کہ وہ لفظ غیر زبان کے ہیں یا دیسی ہیں۔ (۶) الف پر ختم ہونے والے عربی فارسی الفاظ پر حالت جمع میں ہمز ہ واؤ نون غنہ/ہمزہ یائے نون غنہ بڑھائے جائیں گے۔ خدا، خداؤں، دریا، دریاؤں دوا، دواؤں/ئیں، نوا، نواؤں/ئیں اس کے بعض مستثنیات ہیں: تقاضا/تقاضوں، تقاضے، تماشا/تماشے، تماشوں، تماشاؤں، وغیرہ۔ یہ اطلاع دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ یہ غلط اصول کہ ’’ہندی‘‘ میں ہائے مختفی نہیں ہے، ہمارے یہاں مدت سے دباؤ ڈالتا رہا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ اردو میں یہ رجحان پیدا ہوگیا ہے کہ وہ دیسی الفاظ ، جو ہائے مختفی سے لکھے جاتے ہیں، انھیں الف سے لکھا جائے۔ یعنی ہائے مختفی کے حامل اردو کے دیسی الفاظ ہائے مختفی سے الف کی طرف انتقال پذیر رہتے ہیں۔ مثال کے طورپر، آج کل کئی لوگ حسب ذیل املا اختیار کرنے کے حق میں ہیں، اگرچہ یہ املے سب یکساں طور پر مقبول نہیں ہیں، اور نہ ان میں کوئی ایسا ہے کہ سب نے اسے قبول کرلیا ہو: امام باڑا، پتا [بتخفیف فوقانی]، پتا [بتشدید فوقانی]، پیسا، خاکا [کیوں کہ یہ فارسی میں نہیں ہے، ’’ہندی‘‘ ہے]، راستا، رستا، روپیا، سفیدا، گولا، گھنٹا، مہینا، نقشا [کیوں کہ یہ فارسی عربی میں نہیں ہے، ’’ہندی‘‘ ہے]، میلا، ہلا [لام مفتوح مشدد]، وغیرہ۔ مندرجہ بالا املے ابھی پوری طرح رائج نہیں ہیں، لیکن مندرجہ ذیل الفاظ کا املا چند دہائی پہلے تک ہائے مختفی سے بھی متداول تھا۔ اب الف نے ہائے مختفی کو کم و بیش بالکل باہر کردیا ہے: انڈا [انڈہ]، باجا [باجہ]، بھتیجا [بھتیجہ]، بیڑا [بیڑہ]، جوتا [جوتہ]، جھانسا [جھانسہ]، چونا [چونہ]، ڈبا [ڈبہ]، رسا [رسہ، ’’رسہ کشی‘‘ اب بھی متداول ہے]، کرتا [کرتہ]، کلیجا [کلیجہ]، وغیرہ۔ حسب ذیل الفاظ اب بھی دونوں طرح عام ہیں، لیکن مع الف زیادہ نظر آتے ہیں: ٹھکانا، ٹھکانہ، دھبا، دھبہ، دھوکا، دھوکہ، راجا، راجہ، [بہی] کھاتہ، کھاتا، [حلوہ] مانڈہ، مانڈا، مہاراجا، مہاراجہ، وغیرہ۔ ملحوظ رہے کہ’’ راجگان/مہاراجگان‘‘ جمعیں اس لئے متداول ہیں کہ ’’راجہ/مہاراجہ‘‘ متداول ہیں۔ اردو میں ہائے مختفی کے وجود کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ بے شمار جگہوں کے نام ہائے مختفی سے لکھے جاتے ہیں اور کسی نے کبھی انھیں غلط نہیں کہا: آگرہ، بارہ، بارہہ، باندہ، بیانہ، پٹنہ، پٹیالہ، خورجہ، ستارہ [اول مفتوح]، سردھنہ، سنڈیلہ، سیالدہ، سیوہارہ، شملہ، کلکتہ [کولکتہ]، کھنہ، گونڈہ، مالدہ، مالوہ، وغیرہ۔ مزید تفحص کریں تو ’’پورہ‘‘ کا لفظ نظر آتا ہے جو سنسکرت ’’پرم‘‘ (اول مضموم) سے مخفف بنایا گیا ہے، [گورکھ پرم=پر=پور، رام پرم=پر=پور، وغیرہ]۔ ان گنت قصبوں، گاؤوں اور محلوں کے نام میں ’’پورہ‘‘ کا لفظ لاحقہ یا سابقہ کے طور پر ہے۔ ا ن ناموں کی بھی قدامت کچھ کم نہیں: باغبان پورہ، بلوچ پورہ، بھوجی پورہ، پورہ مفتی، جوگی پورہ، شیخو پورہ، وغیرہ۔ میں نے اوپر لکھا ہے کہ اردو میں یہ رجحان نظر آتاہے کہ ہائے مختفی کے حامل الفاظ بھی الف سے لکھے جائیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ بعض کرم فرما اب ’’امروہہ‘‘ کو’’ امروہا‘‘ جیسا بدصورت املا دینے کے حق میں ہیں۔ ہائے مختفی کے خلاف یہ دباؤ خان آرزو کے وقت سے ہے۔ خان موصوف نے ’’نوادر الالفاظ‘‘ میں لکھا ہے کہ ہندیوں میں الف کے بجائے ہائے مختفی لکھنے کا رجحان ہے۔ انھوں نے ’’بنگالہ، روپیہ، مالوہ‘‘ کی مثال دی ہے کہ یہ تینوں الفاظ دراصل الف سے ہیں، لیکن عہد عالمگیر سے ان کا املا ہائے مختفی سے رائج ہوگیا ہے۔ خا ن آرزوبہت بڑے آدمی ہیں لیکن کہنا پڑتا ہے کہ یہاں ان سے سہو ہوا ہے۔ ’’بنگالہ‘‘ تو حافظ کے مشہور شعر میں ہے ؎ شکر شکن شوند ہمہ طوطیان ہند زاں قند پارسی کہ بہ بنگالہ می رود اس غزل کے قافیے’’لالہ، غسالہ‘‘ وغیرہ ہیں، لہٰذا ’’بنگالہ‘‘ میں ہائے مختفی کا وجود قدیم الایام سے ہے۔ظفر احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ امیر خسرونے ایک غزل میں بہت سے دیسی الفاظ کو ہائے مختفی کے ساتھ قافیے میں نظم کیا ہے۔ ظفر صاحب نے چھہ شعر کی نہایت پر لطف غزل نقل کی ہے، میں تین شعر پیش کرتا ہوں، ملاحظہ ہو ؎ سروے چو تو در اچہ و در تتہ نہ باشد گل مثل رخ خوب تو البتہ نہ باشد دوزیم قبا بہر قدت از گل سوری تا خلعت زیبائے تو ازلتہ نہ باشد در جنت و فردوس کسے را نہ گذارند تا داغ غلامی تو اش پتہ نہ باشد اچہ=اچھہ (شہر کا نام)، تتہ=ٹھٹھہ (شہر کا نام)، لتہ=لتا، چیتھڑا، پتہ=پٹا ان قافیوں سے میری اس بات کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ شروع ہی سے اردو املا کا رجحان ہائے ہوز کی طرف رہا ہے لیکن کتابی لوگ یہی چاہتے رہے ہیں کہ دیسی لفظوں کی ہائے مختفی کو الف سے بدل دیا جائے۔’’مالوہ‘‘ کو الف سے لکھا ہوا میں نے نہیں دیکھا، اور’’شب مالوہ‘‘ کی مشہور ترکیب ہے جس میں’’مالوہ‘‘ سب لوگ ہائے مختفی سے لکھتے آئے ہیں۔ ’’روپیہ‘‘ کے بارے میں کچھ یقین سے کہنا مشکل ہے، لیکن خان آرزو خود ہی کہتے ہیں کہ عہد عالمگیر میں اسے ہائے مختفی سے لکھنا شروع کیا گیا۔ لہٰذا یہ املا کم سے کم تین سو برس سے رائج ہے، اس میں تبدیلی اب وہی کرنا چاہے گا جسے زبان میں خواہ مخواہ کے لئے چمڑے کا سکہ چلانا منظور ہو۔’’بنگالہ‘‘ کو ’’بنگالا‘‘ لکھنے والا بھی میں نے کوئی نہیں دیکھا۔ میں نے اوپر کہا ہے کہ لغت نگاروں اور بزعم خود ’’مصلحان املائے اردو‘‘ کے دباؤ کی وجہ سے اردو میں رجحان پیدا ہوا کہ ’’ہندی‘‘ [=دیسی] سے ہائے مختفی کو ’’مخصوص بہ فارسی‘‘ کہہ کر اردو سے خارج کیا جائے ۔ اس سلسلے میں بعض پرانے لغات میں درج املا کا تقابلی مطالعہ کار آمد ہو گا۔ میں یہاں بعض لغات سے الف تا بائے فارسی کی تقطیع سے ہائے مختفی والے کچھ الفاظ پیش کرتا ہوں: غرائب اللغات نوادر الالفاظ شیکسپیئر نفائس اللغات نور اللغات (تقریباً۱۰۹۶) (تقریباً۶۴۷۱) (۴۳۸۱) (تحریر،۷۳۸۱) (۴۲۹۱، ۷۲۹۱) اڈا اڈا موجو دنہیں اڈا اڈا اکھاڑا اکھاڑا اکھاڑا اکھاڑا اکھاڑا باجرہ باجرا موجو دنہیں باجرہ باجرا بھپارہ باؤ گولہ باؤ گولا موجو دنہیں باؤ گولہ باؤ گولا بھپارہ بھپارا موجود نہیں بھپارا پاڈہ پاڈھا/پاڑھا موجود نہیں پاڈہ پاڑا/پاڑھا پتنگہ پتنگا پتنگا پتنگہ پتنگا پرہ پرا پرہ/پرہ باندھنا پرہ پرا پنگھوڑہ پنگھورا موجود نہیں پنگھوڑہ پنگوڑا مندرجہ بالا نقشے سے ظاہر ہے کہ ہائے مختفی کے بارے میں غلط فہمی نے اردو میں یہ دباؤ پیدا کیا کہ جو دیسی لفظ ہائے مختفی سے لکھے جاتے ہیں ان میں ہائے مختفی ترک کرکے الف لگایا جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ’’غرائب‘‘ اور’’نوادر‘‘ کی فہرست بالا میں کوئی لفظ ایسا نہیں جس کی ہائے مختفی شیکسپیئر اور’’نور‘‘ نے باقی رکھی ہو۔عام لکھنے والے، یعنی زبان کے اصل وارث، بھی اس دباؤ میں آگئے اور کئی الفاظ کے مروج املا سے ہائے مختفی کا اخراج کرکے اس کی جگہ الف داخل کردیا گیا۔ ڈونلڈ بیکر (Donald Becker) کے لغات معکوس اردو (Reverse Dictionary of Urdu) مطبوعہ ۱۹۸۰میں حسب ذیل الفاظ ہائے مختفی سے دکھائے گئے ہیں: چھاپہ پتہ بوتہ لتہ بقچہ رندہ دھندہ گذشتہ بیس پچیس برس میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ اب یہ الفاظ شاذ ہی الف مختفی سے لکھے جاتے ہیں۔ یہ تبدیلی بھی اسی بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے یہاں دیسی الفاظ سے ہائے مختفی کو ہٹا کر الف ڈالنے کا رجحان کار فرما رہا ہے، اور اب بھی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ جب بولنے/لکھنے والوں میں ایک رجحان ہے تو ہم لوگ اس کی مذمت کرنے والے اور اسے روکنے کی کوشش کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ یہ اعتراض بالکل درست ہوتا اگر ہائے مختفی کو ہٹا کر الف رکھنے کا رجحان کسی تاریخی عمل، یا غیر شعوری جھکاؤ کے سبب ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ گذشتہ سو ڈیڑھ سو برس سے ہمارے اساتذہ اور ماہرین نے یہ دباؤ پیدا کیا، یعنی اس وقت سے، جب سے’’ہندی‘‘ اور’’اردو‘‘ الگ الگ زبانیں قرار دی گئیں۔ (میں سیاسی طور پر الگ قرار دینے کی بات نہیں کہہ رہا ہوں، لسانی اور علمی سطح پر اس جھوٹی تفریق کے قائم ہوجانے کی بات کر رہا ہوں)۔ ’’ہندی‘‘ اور ’’اردو‘‘ کی تفریق کا آسان معیار یہ مقرر کیا گیا کہ جو الفاظ عربی فارسی سے آئے ہیں وہ اردو کا مابہ الامتیاز ہیں، اور جو الفاظ سنسکرت، پراکرتوں، اور دوسری ہندوستانی زبانوں سے آئے ہیں، وہ ’’ہندی‘‘ ہیں۔ ظاہ%D

ماخذ: لغات روز مرہ    
مصنف: شمس الرحمن فاروقی

مزید دیکھیے

حوالہ جات: ریختہ ڈکشنری کی ترتیب میں مستعمل مصادر اور مراجع کی فہرست دیکھیں ۔

رائے زنی کیجیے (ہائے مُختَفی)

نام

ای-میل

تبصرہ

ہائے مُختَفی

تصویر اپلوڈ کیجیے مزید جانیے

نام

ای-میل

ڈسپلے نام

تصویر منسلک کیجیے

تصویر منتخب کیجیے
(format .png, .jpg, .jpeg & max size 4MB and upto 4 images)
بولیے

Delete 44 saved words?

کیا آپ واقعی ان اندراجات کو حذف کر رہے ہیں؟ انہیں واپس لانا ناممکن ہوگا۔

Want to show word meaning

Do you really want to Show these meaning? This process cannot be undone

Recent Words