تلاش شدہ نتائج

محفوظ شدہ الفاظ

"اِنْکِساری" کے متعقلہ نتائج

طَلاق

طلاق

طَلاق دینا

منکوحہ عورت کو چھوڑ دینا، زوجیت سے خارج کرنا

طَلاق پَڑْنا

(عورت کو) طلاق ہو جانا ، عورت کا نکاح کی قید سے آزاد ہونا ، شوہر سے علیحدہ ہونا.

طَلاق نامَہ

وہ تحریر جس میں طلاق دیے جانے کا مضمون درج ہو، وہ دستاویز جس میں طلاق کی شرائط اور اسباب درج ہوں

طَلاق یافْتَہ

مطلقہ لوگ، وہ جو شادی شدہ زندگی سے الگ ہو گئے ہوں

طَلاق لینا

کسی عورت کا اپنے خاوند سے نکاح کے بندھن سے آزادی حاصل کرنا ؛ شریعت کی رو سے زوجہ کا شوہر سے چھٹکارا حاصل کرنا.

طَلاق ہونا

عورت کا نکاح کی قید سے آزاد ہونا ، زوجیت سے خارج ہونا.

طَلاق نَصِیب

جنس کی قسمت ہی میں طلاق ہو ، وہ عورت جس کا شوہر اس کو طلاق دیے بغیر نہ رہ سکے ؛ (مجازاً) آزاد ، علیحدہ.

طَلاق پانا

طَلاق مِلْنا

عورت کو طلاق حاصل ہونا ، زوجیت سے خارج ہونا.

طَلاقِ بِدْعی

رک : طلاق بدعت.

طَلاقِ خُلْع

(فقہ) طلاق جس میں عورت اپنے شوہر سے بوجوہ راضی نہ ہو اور مہر معاف کر کے یا کچھ اور مال دے کر طلاق لے لے

طلاق شکم

پیٹ چلنا، دست آنا

طَلاقِ بائِن

(فقہ) قطعی طلاق، تین مرتبہ کی طلاق

طَلاقِ بِدْعَت

(فقہ) اس طلاق کی تین صورتیں ہیں : (۱) حالت حیض میں طلاق دی ہو (۲) ایسے طہر میں طلاق دی ہو جس میں مباشرت ہو چکی تھی (۳) تین طلاقیں بیک وقت دے دی ہوں.

طَلاقِ رَجْعی

(فقہ) ایسی طلاق، جس کی مدت عدت میں خاوند اپنی عورت کو بلا تجدید نکاح کے بیوی بنا سکتا ہے، یہ ایک یا دو بار طلاق کا لفظ کہنے سے ہوجاتی ہے

طَلاقِ مُغَلَّظ

(فقہ) وہ طلاق جس کے بعد مطلقہ سے دوبارہ نکاح صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ پہلے وہ عورت کسی اور مرد سے نکاح کرے اور وہ مرد اس سے خلوت صحیحہ کے بعد اپنی مرضی سے اس کو طلاق دے دے یا اس مرد کا انتقال ہو جائے ، اس عمل کو عموماً حلالہ کہتے ہیں ، یہ طلاق تین طلاقیں دینے سے واقع ہوتی ہے.

طَلاقِ بَتَّہ

(فقہ) بقول ترمذی اختلاف کیا ہے اہلِ علم نے طلاق بتّہ میں کہ حضرت علی سے مروی ہے کہ وہ تین طلاق ہیں اور حضرت عمرؓ سے کہ وہ ایک طلاق ہے جبکہ حضرت رکانہ کی حدیث سے یہ بات باتفاق ثابت ہے کہ حضرت رکانہ کی طلاق کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اُس وقت قرار دیا جب کہ انہوں نے حلف کے ساتھ بیان دیا کہ میری نیت تین طلاق کی نہیں تھی.

طَلاقِ مُغَلَّظَہ

طَلاق بِالْکِنایات

(فقہ) یہ طلاق ایسے لفظ سے ہوتی ہے کہ موضوع طلاق کے لیے نہ ہو مگر طلاق کا احتمال رکھتا ہو ، وہ طلاق جو صاف لفظوں میں نہ ہو.

طَلاق ہو جانا

عورت کا نکاح کی قید سے آزاد ہونا ، زوجیت سے خارج ہونا.

طَلاقِ خُلْعی

(فقہ) رک : طلاق خلع.

طَلاقِ مُکْرَہ

رک : طلاق جبری.

تَلاقی

ملاقات، باہم ملنا، ایک دوسرے کو دیکھنا

طَلاقی

جسے طلاق ہو چکی ہو، طلاقن

طَلاقِ حَسَن

(فقہ) تین مختلف طہروں میں متفرق کر کے تین طلاقیں دینا. اسے طلاق سنت بھی کہتے ہیں

طَلاقِ اَحْسَن

(فقہ) وہ طلاق جس میں مرد اپنی عورت کو ایک طلاق حالتِ طہر میں دے دے جس میں اُس سے جماع نہ کیا ہو اور یہ ایک طلاق دے کر چھوڑ دے تو عدت ختم ہونے کے ساتھ نکاح ٹوٹ جاتا ہے.

طَلاقِ جَبْری

(فقہ) وہ طلاق جو جبراً دی جائے ، یہ واقع نہیں ہوتی.

طَلاقِ سُنَّت

(فقہ) رک : طلاق حسن.

طَلاقِ قَبْلَ الدُّخُول

(فقہ) وہ طلاق جو صرف نکاح کے بعد عمل میں آ جائے اور زوجہ سے ہمبستری نہ کی ہو.

طَلاقِ کِنایَہ

(فقہ) رک : طلاق بالکنایات.

طَلاقِ ثُلٰثَہ

وہ طلاق جو ایک وقت میں تین بار دی جائے ، تین طلاقیں ، رک : طلاق بائن.

طَلاقَنی

طلاقن ، طلاق یافتہ عورت.

طَلاقَت

بیان میں روانی اور تیزی، خوش بیانی، خوش گوئی

طَلاقَن

وہ عورت جس کو طلاق ہو گئی ہو، مطلقہ

طَلاقَم طَلاقا

قطع تعلق ، جدائی ؛ خلع ، طلاق.

طَلاقَت کَرنا

باتیں کرنا ، گفتگو کرنا ، بات چیت کرنا.

طَلاقَتِ لِسان

زبان کی روانی

طَلاقَتِ لِسانی

زبان کی روانی

طَلاقَتِ لِسانِیہ

رک : طلاقت لسان.

تَاَلُّق

چمکنا

طَلَق

طَلِیق

ہنس مُکھ ، تیز زبان، فصیح

طالِق

نکاح کی قید سے آزاد، طلاق دی ہوئی عورت، مطلقہ

تَلْقِیح

بار آور کرنا، حاملہ کرنا، نر و مادہ کا ملاپ کرنا

تَعْلِیق

(لفظاً) (کسی چیز کا) لٹکانا، معلق کرنا.

تَعَلُّق

علاقہ، لگاؤ، واسطہ، سروکار

تَلَّڑ

تل کی تصغیر، (مجاذاً) پیٹ، شکم

طِلا کار

ملمع ساز، سونے کی قلعی کرنے والا، سونے کے تاروں کا کام کرنے والا

طِلا کوب

سونے کا ورق بنانے والا

طِلا کاری

سونے کا ملمع کرنا ، سونے کے تاروں کا کام ، سونے کا پانی چڑھانا ، ورق بنانا.

طِلا کوبی

سونے کے ورق بنانا ، سونے کے ورق بنانے کا پیشہ یا کام .

مُعْتَدَہ طَلاق

(فقہ) عورت جو طلاق کی وجہ سے عدت میں ہو ۔

یَومُ التَّلاق

ملاقات کا دن ۔

آخِری طَلاق

(فقہ) طلاق بائن، قطعی طلاق، تین مرتبہ کی طلاق

تِین طَلاق

شوہر کی بیوی سے مطلق علیٰحدگی، تین بار طلاق کہہ دینے کا عمل، طلاق بائن

جَنْتی پَر طَلاق

(کوسنا جو بطور قسم بولتے ہیں) ماں پر طلاق پڑے.

جُمْعَہ کا نِکَاح ہَفْتَہ کو طَلَاق

(عوامی) نکاح کے بعد بہت جلد طلاق ہونے اور میل ہونے کے بعد بہت جلد پھوٹ پڑجانے کی جگہ بولتے ہیں

رِذالی کی جورُو کو سَدا طَلاق

کم ظرف کی دوستی کا کبھی اِعتبار نہیں کرنا چاہیے، کمینہ اور سِفلہ کو اپنے عہد کا کُچھ پاس نہیں ہوتا.

طَلَقُ الْیَدَین

سخی ، فیاض.

اردو، انگلش اور ہندی میں اِنْکِساری کے معانیدیکھیے

اِنْکِساری

inkisaariiइंकिसारी

اصل: فارسی

وزن : 2122

موضوعات: عوامی

اِنْکِساری کے اردو معانی

صفت

  • (عوام) خاکساری، عاجزی، انکسار

    مثال - سکینہ نے شادی کی تجویز انکساری کے ساتھ قبول کر لی

صفت

  • انکسار سے منسوب، توڑنے والا، تقسیم کرنے والا

    مثال - اس غرض کو حاصل کرنے کے لیے انکساری جالی کے ذریعے جھری ج پر ایک تنگ جھری کا طیف بنانا چاہیے۔ (۱۹۳۹، طبیعی مناظر ، ۳۶)

شعر

English meaning of inkisaarii

Adjective

  • ( Colloquial) humility, humbleness

    Example - Sakina ne shadi ki tajwiz inkisari ke sath qubul kar li

Adjective

  • the being broken

इंकिसारी के हिंदी अर्थ

विशेषण

  • ( अवाम) अतिविनम्रता, विनयशीलता, ख़ाकसारी

    उदाहरण - सकीना ने शादी की तजवीज़ इंकिसारी के साथ क़ुबूल कर ली

विशेषण

  • तोड़ने वाला, वितरण करने वाला

اِنْکِساری کے مترادفات

اِنْکِساری سے متعلق دلچسپ معلومات

انکساری اول مکسور، لفظ ’’انکسار‘‘ کے ہوتے ہوئے ’’انکساری‘‘ بے ضرورت اور واجب الترک ہے۔ اس میں چھوٹی ی کوئی کام نہیں کر رہی ہے، فاضل محض ہے۔ حالی ؎ خاکساروں سے خاکساری تھی سر بلندوں سے انکسار نہ تھا صحیح: ان کا انکسار حد سے بڑھا ہوا تھا۔ غلط: ان کی انکساری حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ غلط: ان کی گفتگو میں انکسار ی نہ تھی، غرور تھا۔ صحیح: ان کی گفتگو میں انکسار نہ تھا، غرور تھا۔ انگریز یہ لفظ ہمارے یہاں مختلف شعرا نے برتا ہے، لیکن اس کی اصل اور تلفظ کے بارے میں کلام ہے۔ مندرجہ ذیل مثالیں دیکھئے ؎ شاہ حاتم ؎ شہر میں چرچا ہے اب تیری نگاہ تیز کا دو کرے دل کے تئیں یہ نیمچہ انگریز کا مصحفی ؎ حیف بیمار محبت ترا اچھا نہ ہوا کرنے کو اس کی دوا ڈاکٹر انگریز آیا انشا ؎ انگریز کے اقبال کی ہے ایسی ہی رسی آویختہ ہے جس میں فراسیس کی ٹوپی ان سب سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ الف کے بعد نون غنہ ہے، اور پورا لفظ بروز ن مفعول ہے۔ غالب نے بھی یہی لکھا ہے۔ اس کے بر خلاف، ناسخ نے بر وزن فاعلات باندھا ہے ؎ دل ملک انگریز میں جینے سے تنگ ہے رہنا بدن میں روح کو قید فرنگ ہے بہر حال، آج کل سب لوگ ’’انگریز‘‘ بر وزن مفعول، یعنی بر وزن ’’لبریز‘‘ ہی بولتے ہیں۔ ناسخ کے شعر میں ضرورت شعری کی کارفرمائی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن الف کی حرکت، اور لفظ کی اصل، پر ہمارے زمانے میں اختلاف رہا ہے۔ خواجہ احمد فاروقی مرحوم اس کوبکسر اول بولنے پر اصرار کرتے تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ یہ لفظ پرتگالی Ingles سے بنایا گیا ہے، لہٰذا اس میں اول مکسور ہونا چاہئے۔ میں نے اپنے بچپن میں بعض بزرگوں کو بھی یہ لفظ بکسر اول بولتے سنا ہے۔ لیکن آج کل سب اس لفظ کو بفتح اول بولتے ہیں۔’’اردو لغت، تاریخی اصول پر‘‘ میں بھی اس کو پرتگالی Ingles سے وضع کیا ہوا، لیکن بفتح اول لکھا ہے۔ ’’انگریز‘‘ کو مع اول مکسور بولنے اور پرتگالی الاصل قرار دینے میں کئی قباحتیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ’’انگریز‘‘ بفتح اول، فارسی میں بہت پرانا لفظ ہے۔ ’’برہان قاطع‘‘ میں اس کے معنی ’’نوعے ازمردم فرنگ‘‘ درج ہیں۔ ’’برہان‘‘ سے یہ ’’انجمن آرائے ناصری‘‘ اور پھر ’’آنند راج‘‘ میں نقل ہوا ہے۔ دوسری بات یہ کہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب کسی غیر لفظ میں کچھ تبدیلی کرکے اپنا لفظ بناتے ہیں تو غیر لفظ کی حرکات کو بالکل ، یا کم و بیش، برقرار رکھتے ہیں۔ فارسی والوں نے بعد میں فرانسیسی Ingles (اسپینی میں بھی Ingles ہی ہے) سے ’’انگلیس/انگلیز‘‘ (دونوں بکسر اول) بنایا۔ اردو میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے تھا (یعنی ’’انگلیس‘‘) لیکن نہیں ہوا۔ معلوم ہوا کہ Ingles بکسر اول سے ’’انگریز‘‘ بفتح اول نہیں بن سکتا۔ اب رہا ’’انگریز‘‘ بکسر اول، تو تیسری بات یہ کہ مغربی لغت نویس ’’انگریز‘‘ (بفتح اول یا بکسر اول) کو پرتگالی سے مشتق نہیں بتاتے۔ شیکسپیئر میں تو ’’انگریز‘‘ درج ہی نہیں، اس نے صرف ’’انگریزی‘‘ بفتح اول لکھا ہے اور اسے فارسی الاصل بتایا ہے۔ پلیٹس نے اسے بفتح اول لکھ کر English کی بگڑی ہوئی صورت بتا یا ہے، لیکن یہ صورت کس طرح بنی، اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں۔ ایک بالکل قیاسی بات میرے ذہن میں یہ ہے کہ ’’انگریز‘‘ بفتح اول فرانسیسی Anglais بمعنی ’’انگریز‘‘ سے بنا ہو۔ ہرچند کہ Anglais کا فرانسیسی تلفظ ’’آنگلے‘‘ ہے، لیکن جب اس کے بعد کوئی مصوتہ ہو تو اسے ’’آنگلیز‘‘ ادا کرتے ہیں۔ مثلاً ہمیں فرانسیسی میں کہنا ہو، ’’انگریزیہاں پر ہیں‘‘، تو ہم کہیں گے: Les Anglais ont ici اب بیچ کے دو لفظوں کو ملا کر ’’آنگلیزوں‘‘ بولا اور پڑھا جائے گا۔ لہٰذا شاید ایسا ہوا ہو کہ فارسی /اردووالوں نے Anglais کے آخری حرف کو Z سن کر اس کا تلفظ ’’آنگلیز‘‘ قیاس کرلیا ہو۔ یہاں سے ’’انگریز‘‘ بفتح اول تک پہنچنا طبعی بات ہے۔ چونکہ آج کل لفظ ’’انگریز‘‘ کا مقبول (بلکہ واحد) تلفظ بفتح اول ہے، اور اس کا خاصا امکان ہے کہ یہ فار سی سے ہمارے یہاں بفتح اول آیا، لہٰذا یہ بات تو طے ہے کہ ’’انگریز‘‘ کا صحیح تلفظ بفتح اول ہی ہے۔ لیکن پہلے زمانے میں بکسر اول بھی اس کا ایک تلفظ رہا ہوگا۔ اور اس صورت میں یہ لفظ اغلباً انگریزی English اور فرانسیسی Anglais کے قیاس پر انیسویں صدی میں بنایا گیا ہوگا۔ Ivor Lewis کے لغت Sahibs, Nabobs and Boxwallahs میں Ingrez درج کرکے لکھا ہے کہ یہ انیسویں صدی کا لفظ ہے اور English کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اس کی سند میں G.C.Whitworth کیAn Anglo Indian Dictionary, 1885 درج کیا گیاہے۔ تنہا English سے ’’انگریز‘‘ بکسر اول بن جائے، یہ سمجھ میں نہیں آتا، لہٰذا ممکن ہے فرانسیسی Anglais نے یہاں بھی کوئی کام کیا ہو۔ مختصر یہ کہ لفظ ’’انگریز‘‘ آج کل بفتح اول ہے۔ انیسویں صدی میں بکسر اول بھی رائج ہوا، لیکن بیسویں صدی کی دوسری چوتھائی سے اسے بفتح اول ہی بولتے ہیں، اور یہی تلفظ مرجح ہے۔

ماخذ: لغات روز مرہ    
مصنف: شمس الرحمن فاروقی

مزید دیکھیے

حوالہ جات: ریختہ ڈکشنری کی ترتیب میں مستعمل مصادر اور مراجع کی فہرست دیکھیں ۔

رائے زنی کیجیے (اِنْکِساری)

نام

ای-میل

تبصرہ

اِنْکِساری

تصویر اپلوڈ کیجیے مزید جانیے

نام

ای-میل

ڈسپلے نام

تصویر منسلک کیجیے

تصویر منتخب کیجیے
(format .png, .jpg, .jpeg & max size 4MB and upto 4 images)
بولیے

Delete 44 saved words?

کیا آپ واقعی ان اندراجات کو حذف کر رہے ہیں؟ انہیں واپس لانا ناممکن ہوگا۔

Want to show word meaning

Do you really want to Show these meaning? This process cannot be undone