تلاش شدہ نتائج
محفوظ شدہ الفاظ
"مُفْلِس" کے متعقلہ نتائج
اردو، انگلش اور ہندی میں مُفْلِس کے معانیدیکھیے
مُفْلِس کے اردو معانی
صفت
-
جس کے پاس پیسہ اور مال نہ ہو، محتاج، بے زر، غریب
مثال - رفتہ رفتہ دولت و جائداد نے کنارہ کشی شروع کی یہاں تک کہ چند روز میں انکسا غورس بالکل مفلس ہو گیا
- مسکین، فقیر، نادار
- قلاش، کنگال، فاقہ کش
شعر
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
تشریح
اس شعر کا پہلا مصرع عام طور پر یوں مشہور ہےع
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
لیکن صحیح اور بہتر وہی ہے جو درج متن ہے۔ مصحفی کا ایک شعر اس سے تقریباً ہوبہو لڑ گیا ہے؎
شام سے ہی بجھا سا رہتا ہے
دل ہے گویا چراغ مفلس کا
میر کا شعر مصحفی سے کہیں بہتر ہے، کیوں کہ پہلے مصرع میں کہا کہ میں شام سے کچھ افسردہ رہتا ہوں۔ یہ افسردگی پورے مزاج، پوری شخصیت کی ہے۔ دوسرے مصرع میں بظاہر غیر متعلق بات کہی کہ میرا دل مفلس کا چراغ ہو گیا ہے۔ لیکن دراصل پہلے مصرعے میں دعویٰ اور دوسرے مصرعے میں دلیل ہے۔ جب دل مفلس کے چراغ کی طرح ہے تو ظاہر ہے اس میں روشنی کم ہوگی، یعنی حرارت کم ہوگی، یعنی اس میں امنگیں اور امیدیں کم ہوں گی۔ اور جب دل میں امنگیں اور امیدیں کم ہوں گی تو ظاہر ہے کہ پوری شخصیت افسردہ ہوگی۔ مصحفی کے شعر میں صرف ایک مشاہدہ ہے، کہ دل بجھا سا رہتا ہے۔ میر کے یہاں دو مشاہدے ہیں اور دونوں میں دعویٰ اور دلیل کا ربط بھی ہے۔ پھر یہ نکتہ بھی ہے کہ دل میں اگر روشنی کم ہے تو اس میں سوز بھی کم ہوگا۔ (چراغ جتنا روشن ہوگا اس میں سوزش بھی اتنی ہی ہوگی) تو اگر دل میں روشنی کم ہے تو اس میں سوز بھی کم ہوگا۔ (چراغ جتنا روشن ہوگا اس میں سوزش بھی اتنی ہی ہوگی۔) تو اگر دل میں سوز محبت کم ہونے کی وجہ سے طبیعت افسردہ رہتی ہے، یا دل بے نور ہے، یعنی اس میں معشوق کا جلوہ نہیں، یا اس میں نور معرفت نہیں۔ شام کی تخصیص اس وجہ سے کی کہ دن کو تو طرح طرح کی مصروفیتوں میں دل بہلا رہتا ہے۔ شام آتے ہی بے کاری اور تنہائی آ گھیرتی ہے۔ دل چوں کہ بالکل بے نور نہیں، بلکہ مفلس کے چراغ کی طرح سے دھندلی لو رکھتا ہے، اس لئے خود کو ’’کچھ بجھا سا‘‘ کہا، بالکل افسردہ نہیں کہا۔ دل میں ولولہ یا جلوۂ معشوق یا نور معرفت کم ہونے کے لئے اس کو دھندلے چراغ سے تشبیہ دینا، اور پھر چراغ کو براہ راست دھندلا نہ کہنا، بلکہ کنایاتی انداز میں مفلس کا چراغ کہنا، اعجاز سخن گوئی ہے۔ ’’چراغ مفلس‘‘ کا پیکر نسبتاً کمزور طریقے سے میر نے دیوان اوّل میں ہی ایک بار اور باندھا ہے؎
کہہ سانجھ کے موئے کو اے میر روئیں کب تک
جیسے چراغ مفلس اک دم میں جل بجھا تو
شہر یار نے اس مضمون کا ایک پہلو بڑی خوبی سے ادا کیا ہے؎
یہ تب ہے کہ اک خواب سے رشتہ ہے ہمارا
دن ڈھلتے ہی دل ڈوبنے لگتا ہے ہمارا
قائم چاند پوری نے بھی میر کے چراغ سے اپنا چراغ روشن کیا ہے۔ لیکن انہوں نے ’’تہی دست کا چراغ‘‘ کہہ کر ایک نیا پیکر بنایا ہے۔ اور ایک نئی بات بھی پیدا کردی ہے کہ ہاتھ خالی بھی ہے اور اس میں چراغ بھی ہے۔ قائم کا شعر ہے؎
نت ہی قائم بجھا سا رہتا ہوں
کس تہی دست کا چراغ ہوں میں
شمس الرحمن فاروقی
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
کتنے مفلس ہو گئے کتنے تونگر ہو گئے
خاک میں جب مل گئے دونوں برابر ہو گئے
English meaning of muflis
मुफ़्लिस के हिंदी अर्थ
مُفْلِس کے مترادفات
مُفْلِس کے متضادات
مُفْلِس سے متعلق کہاوتیں
حوالہ جات: ریختہ ڈکشنری کی ترتیب میں مستعمل مصادر اور مراجع کی فہرست دیکھیں ۔
رائے زنی کیجیے (مُفْلِس)
مُفْلِس
تصویر اپلوڈ کیجیے مزید جانیے
نام
ای-میل
ڈسپلے نام
تصویر منسلک کیجیے
Delete 44 saved words?
کیا آپ واقعی ان اندراجات کو حذف کر رہے ہیں؟ انہیں واپس لانا ناممکن ہوگا۔