Search results

Saved words

Showing results for "aabshaar"

aabshaar

waterfall, cascade, fall

aabshaar honaa

aabshaar karnaa

abashed

KHajil

aab-e-shor

water of ocean, salt water, brackish water

aabaa-e-shahr

city fathers, members of city or municipal government or councillors

aab-e-shiirii.n

sweet water

aab-shora

water cooled with saltpetre, a sherbet made of lime-juice and sugar (generally cooled), lemonade

aab-e-'ishrat

wine

'aib-e-shar'ii

a flaw given in Sharia

Meaning ofSee meaning aabshaar in English, Hindi & Urdu

aabshaar

आबशारآبْشار

Origin: Persian

Vazn : 2121

English meaning of aabshaar

Noun, Masculine, Singular

Pictorial Reference

Upload more images

Sher Examples

आबशार के हिंदी अर्थ

संज्ञा, पुल्लिंग, एकवचन

  • झरना, निर्झर, प्रपात, जल-प्रपात, गिरावट
  • पत्थर या धातु का छलनी समान फ़व्वारा
  • (लाक्षणिक) पानी के क़तरों की लड़ी, पानी की फुवार

آبْشار کے اردو معانی

اسم، مذکر، واحد

  • قدرتی پانی کی موٹی دھار جو زور شور کے ساتھ پہاڑ وغیرہ سے نیچے کی طرف گرتی ہے، پانی کی چادر، جھرنا
  • پتھر یا دھات کا چھلنی نما فوارہ
  • (مجازاً) پانی کے قطروں کی لڑی، پانی کی پھوار

Interesting Information on aabshaar

آبشار آج کل یہ لفظ بلا شبہ مذکر ہے، لیکن پہلے زمانے میں، بلکہ آج سے ساٹھ ستر برس پہلے تک اسے مؤنث کہا جاتا تھا۔ ’’نوراللغات‘‘ جلد اول، مطبوعہ ۴۲۹۱، اور آفاق بنارسی کی’’معین الشعرا‘‘ مطبوعہ ۴۳۹۱ میں اسے مؤنث لکھا ہے۔ ’’نوراللغات‘‘ میں امیر مینائی کا شعر سنداً درج ہے اور ’’معین الشعرا‘‘ میں امیر مینائی کے اسی شعر کے ساتھ انشا اور نوازش لکھنوی کے بھی شعر درج ہیں۔ لیکن ’’معین الشعرا‘‘ میں شہید الدین احمد کے رسالۂ تذکیر و تانیث کے حوالے سے یہ بھی کہا گیاہے کہ مرزا مہدی قبول نے یہ لفظ مذکر باندھا ہے۔ اس پر’’معین الشعرا‘‘ کا استدراک ہے کہ ’’اس کا اتباع نہیں کیا گیا‘‘۔ صاحب ’’معین الشعرا‘‘ کی بات جلد ہی نا درست ثابت ہوگئی ہوگی، کیونکہ اب یہ لفظ ہمیشہ مذکر سنا جاتا ہے اور اس کا پورا امکان ہے کہ پہلے بھی اسے کبھی کبھی مذکر بولا جاتا ہو، کیونکہ پلیٹس (۵۸۸۱) اور شیکسپیئر (۴۳۸۱) نے اسے مذکر اور مؤنث دونوں لکھا ہے۔ ’’اردو لغت، تاریخی اصول پر‘‘ میں ’’آبشار‘‘ کو مذکر اور مونث دونوں لکھا ہے۔ تذکیر کے ثبوت میں میر کا یہ شعر پیش کیا گیا ہے؎ ادھر کے تئیں ایک تھا آبشار وہ البتہ شایان سیر و شکار یہ شعر میر کے’’شکارنامۂ اول‘‘ میں ہے۔ لیکن اس کے علاوہ کوئی قدیم سند ’’آبشار‘‘ کی تذکیرکے بارے میں نہیں مل سکی۔ اثر لکھنوی نے’’نوراللغات‘‘ پراعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے بھی کسی آبشار کی روانی اور زور و شور دیکھا ہے وہ اسے مؤنث نہیں کہہ سکتا۔ ’’پانی کا حجم اور زوروشور کے ساتھ بلندی سے گرنا اس کی تانیث کے منافی ہیں‘‘۔ اس بات سے قطع نظر کہ آبشار چھوٹے بھی ہوتے ہیں، یہ اصول ہی درست نہیں ہے کہ زور، طاقت اور رعب ظاہر کرنے والے الفاظ مذکر ہوتے ہیں۔ ملاحظہ ہو’’مذکر اور مؤنث الفاظ کی پہچان، اردو میں‘‘۔ اثر لکھنوی مزید لکھتے ہیں کہ انھیں ’’آبشار‘‘ کی تذکیر کے لئے سند کی تلاش پھر بھی رہی، اور آخر انھیں محمد حسین جاہ کی ’’طلسم فصاحت‘‘ میں یہ فقرہ مل گیاـ: پہاڑیوں سے آبشار گرتا۔ گھاٹیوں سے جھرنا جھڑتا۔ ’’طلسم فصاحت‘‘ کئی بار چھپی ہے (اول اشاعت، ۶۷۸۱)۔ معلوم نہیں اثر صاحب نے کس ایڈیشن سے مذکورہ عبارت نقل کی ہے۔ میرے پاس ۱۸۸۱ء کے ایڈیشن کے اس نسخے کی نقل ہے جو آکسفورڈ کی بوڈلین لائبریری میں محفوظ ہے۔ اس میں صفحہ ۲۲ پر حسب ذیل عبارت ہے: پہاڑوں سے آبشار ہوتا۔ گھاٹیوں سے جھرنا جھڑتا۔ اگر منقولہ بالا متن صحیح ہے تو محمد حسین جاہ نے’’آبشار‘‘ کو ’’جھرنا‘‘ یا Waterfall کے معنی میں استعمال نہیں کیا ہے، کیوں کہ انھوں نے فوراً ہی ’’جھرنا جھڑتا‘‘ لکھا ہے۔ ان کی مراد غالباً یہ ہے کہ پہاڑوں پر سے پانی کی بوچھاریں آرہی تھیں، یا پانی جگہ جگہ سے گر رہا تھا، جھرنے کی طرح نہیں، بلکہ سطح کوہ سے لگ کر۔ اسی لئے انھوں نے’’آبشار ہوتا‘‘ لکھا ہے، گویا پانی نیچے آرہا تھا۔ میر کے شعر سے بھی یہ معنی نکل سکتے ہیں (ایک جگہ ایسی تھی جہاں پانی پہاڑ سے نیچے اتر رہا تھا)۔ شیخ تصدق حسین کی داستان’’کوچک باختر‘‘(اول اشاعت،بعد ۲۹۸۱ اور قبل ۱۰۹۱)میں کسی کا شعر درج ہے (ص۵۷۲)؎ پتھر سے کہیں جبیں جو پھوٹی اک خون کی آبشار چھوٹی ’’نوراللغات‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ لفظ مرکب ہے’’آب‘‘ اور’’شار‘‘ کا، اور’’شار‘‘ بمعنی’’کھلا، اونچائی کا راستہ‘‘ ہے۔ لیکن ’’آنند راج‘‘ میں کچھ اور ہی درج ہے۔ صاحب ’’آنند راج‘‘ نے ’’شار‘‘ کے ایک معنی ’’راہ کشادہ و فراخ‘‘ ضرور بتائے ہیں، لیکن ایک معنی’’فرو ریختن آب و شراب مانند آبشاروسرشار‘‘ بھی لکھے ہیں۔ ’’جہانگیری‘‘ سے ان معنی کی تصدیق ہوتی ہے، بلکہ ’’آنند راج‘‘ نے ’’جہانگیری‘‘ ہی کی عبارت نقل کی ہے۔ مندرجہ بالا بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’آبشار‘‘ پہلے اس پانی کو کہتے تھے جو بلندی سے، مثلاً پہاڑ سے گرتا، یعنی لڑھکتا ہوا آتا ہے، اور یہ لفظ مذکر تھا۔ ان معنی میں انگریزی میںCascade اور Cataract بولا جاتا ہے۔ ’’جھرنا‘‘ Waterfall کے معنی میں تھا، اور مذکر تھا۔ آہستہ آہستہ ’’آبشار‘‘ اور ’’جھرنا‘‘ کم و بیش ہم معنی ہو گئے، یعنی Waterfall اور Cataract دونوں کو’’جھرنا‘‘ اور ’’آبشار‘‘ موقعے کی مناسبت سے کہنے لگے۔ ’’جھرنا‘‘ مذکر تھا ہی، اب ’’آبشار‘‘ کی تانیث بالکل غائب ہو گئی اور وہ صرف مذکر رہ گیا۔ موجودہ بول چال میں عموماً چھوٹے آبشار کو ’’جھرنا‘‘ اور بڑے آبشار کو ’’آبشار‘‘ کہا جاتا ہے۔

ماخذ: لغات روز مرہ    
مصنف: شمس الرحمن فاروقی

View more

Showing search results for: English meaning of abshar

Citation Index: See the sources referred to in building Rekhta Dictionary

Critique us (aabshaar)

Name

Email

Comment

aabshaar

Upload Image Learn More

Name

Email

Display Name

Attach Image

Select image
(format .png, .jpg, .jpeg & max size 4MB and upto 4 images)
Speak Now

Delete 44 saved words?

Do you really want to delete these records? This process cannot be undone

Want to show word meaning

Do you really want to Show these meaning? This process cannot be undone

Recent Words